مجھے ہر طرف نااِنصافی نظر آتی تھی
مَیں 1965ء میں شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوا اور کاؤنٹی ڈیری میں پلا بڑھا۔ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اُس زمانے میں کیتھولک مذہب اور پروٹسٹنٹ مذہب کے لوگوں کے درمیان بہت دنگےفساد ہو رہے تھے جو 30 سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہے۔ شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک لوگ اقلیت میں تھے۔ اُن کو لگتا تھا کہ پروٹسٹنٹ اُن کے ساتھ تعصب برت رہے ہیں اور الیکشنوں میں حصہ لینے، ملازمت حاصل کرنے اور رہائش کے سلسلے میں اُن کے ساتھ نااِنصافی کر رہے ہیں۔
مجھے ہر طرف نااِنصافی نظر آتی تھی۔ چونکہ مَیں کیتھولک تھا اِس لئے مجھے کئی بار مارا پیٹا گیا، گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا گیا اور مجھ پر بندوق تانی گئی۔ کئی بار پولیس والوں اور فوجیوں نے مجھ سے تفتیش کی اور میری تلاشی لی۔ میرے ساتھ بِلاوجہ بُرا سلوک کِیا جا رہا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ ”مجھے یا تو اِس ظلم کو چپچاپ برداشت کرنا ہوگا یا پھر اِس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔“
جب 1972ء میں برطانوی فوجیوں نے 14 احتجاجیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تو لوگوں نے اِس کے خلاف احتجاج کئے اور مَیں نے بھی اِن میں حصہ لیا۔ پھر 1981ء میں کچھ لوگوں نے آئرلینڈ کی آزادی کے لئے بھوک ہڑتال کی اور اِن میں سے کچھ لوگ مر گئے۔ اِن لوگوں کی یاد میں جو احتجاج کئے گئے، اُن میں مَیں نے بھی حصہ لیا۔ برطانوی حکومت نے آئرلینڈ کے جھنڈے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ مَیں نے احتجاج کے طور پر جگہجگہ یہ
جھنڈے لگا دئے اور دیواروں پر برطانوی حکومت کے خلاف نعرے لکھے۔ مجھے لگتا تھا کہ کیتھولک لوگوں کے ساتھ آئے دن کوئی نہ کوئی زیادتی ہو رہی ہے جس پر آواز اُٹھانا ضروری ہے۔ جو احتجاج مارچ کی صورت میں شروع ہوتا تھا، اکثر اُس کا انجام دنگےفساد کی صورت میں نکلتا تھا۔جب مَیں یونیورسٹی میں تھا تو مَیں نے ماحول کی آلودگی کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں حصہ لیا۔ پھر مَیں لندن منتقل ہو گیا۔ یہاں حکومت کے خلاف احتجاج ہو رہے تھے کیونکہ لوگوں کو لگتا تھا کہ حکومت کے بعض منصوبوں سے صرف امیروں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ مَیں نے نہ صرف اِن احتجاجوں میں حصہ لیا بلکہ اُن احتجاجوں میں بھی جو تنخواہوں میں کمی کے خلاف کئے جا رہے تھے۔ سن 1990ء میں حکومت نے نیا ٹیکس لاگو کِیا جس کے خلاف زبردست احتجاج کئے گئے اور احتجاجیوں نے ٹرافالگر سکوائر میں بہت زیادہ توڑپھوڑ کی۔ مَیں بھی اِن احتجاجوں میں شامل تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھساتھ مَیں بہت مایوس ہو گیا۔ احتجاج کرنے سے ہماری مانگیں تو پوری نہیں ہو رہی تھیں البتہ اِن سے نفرت کی آگ کو ہوا ضرور مل رہی تھی۔
بھلے ہی اِنسان نیکنیتی سے اِنصاف قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
پھر ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے یہوواہ کے گواہوں سے ملایا۔ اُنہوں نے مجھے پاک کلام سے دِکھایا کہ جب اِنسانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو خدا کو دُکھ ہوتا ہے اور وہ مستقبل میں اُن تمام مسائل کو حل کر دے گا جو اِنسانوں کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔ (یسعیاہ 65:17؛ مکاشفہ 21:3، 4) بھلے ہی اِنسان نیکنیتی سے اِنصاف قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دُنیا کے مسائل کے پیچھے شیطان کا ہاتھ ہے۔ اِس لئے ہمیں خدا کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔—یرمیاہ 10:23؛ افسیوں 6:12۔
اب مَیں سمجھ گیا ہوں کہ نااِنصافیوں کے خلاف مَیں نے جو احتجاج کئے، وہ ایسے تھے جیسے کوئی شخص ڈوبتی کشتی کو سجانے کی کوشش کر رہا ہو۔ مجھے یہ جان کر بڑی تسلی ملی کہ وہ وقت آنے والا ہے جب دُنیا سے ہر طرح کی نااِنصافی ختم ہو جائے گی اور سب لوگ برابر ہوں گے۔
پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا ”اِنصاف کو پسند کرتا ہے۔“ (زبور 37:28) اِس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ پوری دُنیا میں اِنصاف قائم کرے گا۔ یہ ایک ایسا کام سے جو کوئی بھی اِنسانی حکومت نہیں کر سکتی۔ (دانیایل 2:44) اگر آپ اِس بارے میں اَور سیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے علاقے کے یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں یا پھر ہماری ویبسائٹ www.pr2711.com کو دیکھیں۔